وہ چوری کرنا اپنا حق سمجھتا ہے
ہمارے پڑوس میں ایک صاحب رہتے تھے‘ غریب آدمی تھے لیکن میں نے زندگی میں کبھی ان کو حلال حرام‘ جائز ناجائز‘ پاک ناپاک کی کبھی احتیاط کرنے والا نہیں پایا‘ اس کی زندگی میں جو چیزجیسے ہاتھ لگی جہاں سے لگی‘ جیسے ملی‘ وہ اپنا حق سمجھتا ہے حتیٰ کہ خود ہمارے گھرانے کی بھی کئی بار اس نے چوریاں کیں‘ کئی چیزیں اٹھائیں‘ لیکن وہ اپنی عادت سے کبھی باز نہ آیا‘ بعض اوقات پکڑا بھی گیا‘ بظاہر وہ گدھا ریڑھی چلاتا‘ اسی سے مزدوری کرتا لیکن اس کی نظر ہروقت چوری اور مال حرام پر رہتی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے یہ بات آج سے کوئی چھبیس ستائیس سال پرانی ہے‘ ایک دفعہ اس نے میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا عرق نکالنے والا قرع انبیق چرا لیا‘ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو یقین تھا کہ اسی نے چرایا ہے‘ اسے بلایا‘اس نے قسم قرآن نامعلوم کیا عہد و پیماں کیے کہ میں نے نہیں چرایا۔ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’تیرے اس ہاتھ نے چرایا ہے‘ میں تیرے اس ہاتھ کو گواہ بناتا ہوں اگر یہ تیرے اس ہاتھ نے میرا رزق حلال چرایا ہے تو یہ تیرا ہاتھ تیرے ساتھ کفن‘ قبر میں نہ جائے تاکہ قیامت کے دن تجھے رسوائی نہ ہو‘ دنیا میں جو سزا بھگتنی ہے بھگت لے‘‘
اور آخر کار اس کا ہاتھ کٹ گیا
اس نے ان الفاظ کی کوئی پرواہ نہ کی‘ وہ چوری کھاگیا‘ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا‘ ایک بار میں نے اسے دیکھا تو اس کادایاں ہاتھ کٹا ہوا تھا‘ مجھے حیرت ہوئی‘ جھٹکا لگا اور یکایک والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اس وقت جلالی کیفیت تھی اس جلالی کیفیت کے دوران وہ الفاظ‘ یاد آئے‘ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا؟ اسے وہ وقت بھول گیا تھا‘ وہ لمحے یاد نہیں رہے تھے کیونکہ اس نے کوئی ایک چوری کی ہوتی تو اسے یاد ہوتا‘ جائز ناجائز وہ اپنا حق سمجھتا تھا۔ کہنے لگا: گدھی کے لیے گھاس کاٹ رہا تھا گھاس کاٹنے والی مشین میں ہاتھ آگیا اور سارا ہاتھ کٹ گیا‘ میں خاموش چلاگیا۔
ملازم کا دھوکہ اور کاروبار تباہ
پھر مجھے ایک اور واقعہ یاد آیا مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آنے کے لیے ٹیکسی لی ہم تین افراد تھے ٹیکسی ڈرائیور سے باتیں ہوئیں‘ وہ اصل میں ملتان کا رہنے والا تھا۔ کہنے لگا میری ملتان میں بہت قریبی عزیز ہ فوت ہوئیں‘ مجھے مدینہ سے ملتان آنا تھا‘ میں نے اپنا کھجوروں کا کام بہت بڑا کاروبار تھا‘ وہ اپنے ملازم کو دیا اور تاکید کی کہ اس کا خیال رکھنا‘ پرانا ملازم تھا‘ میں ملتان آیا تو یہاں کی مصروفیت میں چند ماہ ٹھہر گیا‘ فون پر بات ہوتی رہتی تھی وہ ہر وقت ہر چیز درست بتاتا‘ کاروبار بہت اچھا ہے‘ میں مطمئن رہا‘ کئی ماہ کے بعد جب مدینہ منورہ پہنچا تو اس سے کاروبار کا حساب لیا تو پتہ چلا کہ اس نے مجھے لاکھوں ریال کا مقروض کردیا‘ اب میں پریشان کہ کاروبار کہاں گیا؟ اور یہ پیسہ کہاں گیا؟ کہنے لگا :سب کچھ آپ کے سامنے ہے‘ مجھے حساب کتاب نہیں آتا‘ الغرض وہ ہر چیز سےمکرگیا اور میرا سب کچھ کھاگیا۔
حضور نبی کریمﷺ کے روضہ اطہر پروجدانی کیفیت اور انوکھےالفاظ
میں حضور ﷺ کے روضہ اطہر پر گیا رو کر ان کی بارگاہ میں عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ اس نے میرا مال کھایا‘ میں اس کو دنیا میں معاف نہیں کررہا ‘میں نےاس کو آخرت میں معاف کیا‘ آخرت میں اس لیے معاف کیا کہ سارے انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے یہ امتی شرمندگی کا ذریعہ نہ بن جائے‘ بس میرے وجدانی الفاظ تھے‘ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی مجھے کیا کہنا ہے کیا نہیں کہنا۔ آج بھی ان بولوں پر خود شرمندہ ہوں‘ میں اس طرح کی باتیں کرکے چلا آیا۔ کاروبار کیا تھا‘ سب کچھ ختم ہوگیا‘ مقروض ہوگیا حتیٰ کہ ٹیکسی چلانا شروع کردی اور کما کما کر اپنے قرض اتارنا شروع کیے۔
کوئی سزا دے دیتے مگرروضہ رسولﷺ پر شکایت نہ لگاتے
کچھ ہی عرصہ کے بعد وہی میرا ملازم اسی دکان کامالک بن کربیٹھا تھا مجھے ساری سمجھ آگئی لیکن میں معاملہ اللہ پر چھوڑ چکا تھا اور اس کے حبیب ﷺ کو گواہ بنا چکا تھا‘ پھر میں نے آنکھوں سے منظر دیکھا جب یہ دکان پر آجاتا تواس کا عربی کفیل اس کے گھر جہاں اس کی بیوی اکیلی ہوتی وہاں چلا جاتا۔ پھر یہ نہیں بلکہ کچھ ہی عرصہ کے بعد اس کے سارے کاروبار پر وہ کفیل قابض ہوگیا‘ یہ پھر جھاڑو پر آگیا حتیٰ کہ جھاڑو سے بھی اس کو دکان سے فارغ کردیا۔ آج در بدر مزدوری کرتا ہے‘ گھر بھی گیا‘ عزت بھی گئی‘ غیرت بھی گئی‘ دکان بھی گئی‘ کاروبار بھی ختم‘ کئی بار میرے پاس آتا ہے مجھے معاف کردیں میں نے آپ کو دھوکہ دیا‘ میں نے کہا بھائی میں نے تو حضور ﷺ کےروضہ اطہر پر جاکر یہ کچھ کہا تھا‘ ایک بار کہنے لگا آپ نے روضہ رسول ﷺ پر جاکر میرا شکوہ کرکےمجھے بہت بڑی سزا دی ہے‘ اس سے کم کی سزا دیتے۔
قارئین! زندگی جیسی بھی ہو‘ ایک شعر ضرور سمجھ آتا ہے
ؔجیسی کرنی ویسی بھرنی نہ مانے تو کرکے دیکھ
دوزخ بھی ہے جنت بھی ہے نہ مانے تو مر کے دیکھ
بس ہمیشہ اللہ سے ایک لفظ مانگیں اور اس لفظ کو اپنے دل کی گہرائیوں میں لکھ لیں میں بھی اور آپ بھی’’ یااللہ بغیر آزمائش اور امتحان کے ہدایت دے اور مغفرت فرما! اور میرے گناہوں کی وجہ سے میری نسلوں سے انتقام نہ لے‘ اللہ میری نسلوں کو اپنے غصہ انتقام اور مکافات سے بچا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں